میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا
اس سے پہلے کے تیری چشم کرم معزرت کی نگاہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام اور تو بے گناہ بن جائے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا
اس سے پہلے کے سادگی تیرے لب خاموش کو گلہ کہہ دے
تیری مجبوریاں نا دیکھ سکے اور دل تجھ کو بے وفا کہہ دے
جانے میں بےخودی میں کیا پوچھوں ، جانے تو بے رخی سے کیا کہہ دے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا
اس سے پہلے کے تیرے ہونٹوں سے غیر ہونٹوں کے جام ٹکرائے
اس سے پہلے کے زلف کے بادل اجنبی بازوؤں پہ لہرائے
اور تیری بےبسی کے نظارے میری آنکھوں پہ آگ برسائے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا
چھوڑ کر ساحل حیات چلا اب سفینہ میرا کہیں ٹھہرے
زہر پینا میرا مقدر ہے اور تیرے ہونٹ دل - نشین ٹھہرے
کس طرح تیرے آسْتان پہ رکوں جب نا پاؤں تلے زمیں ٹھہرے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا
مجھ کو اتنا ضرور کہنا ہے وقت رخصت سلام سے پہلے
توڑ لوں رشتہ نظر میں بھی تو اُتَر آئے بام سے پہلے
یہ میری جان میرا وعدہ ہے کل کسی وقت شام سے پہلے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا
پیر, 26 نومبر 2012