شعراء 

میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا


اس سے پہلے کے تیری چشم کرم معزرت کی نگاہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام اور تو بے گناہ بن جائے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

اس سے پہلے کے سادگی تیرے لب خاموش کو گلہ کہہ دے
تیری مجبوریاں نا دیکھ سکے اور دل تجھ کو بے وفا کہہ دے
جانے میں بےخودی میں کیا پوچھوں ، جانے تو بے رخی سے کیا کہہ دے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

اس سے پہلے کے تیرے ہونٹوں سے غیر ہونٹوں کے جام ٹکرائے
اس سے پہلے کے زلف کے بادل اجنبی بازوؤں پہ لہرائے
اور تیری بےبسی کے نظارے میری آنکھوں پہ آگ برسائے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

چھوڑ کر ساحل حیات چلا اب سفینہ میرا کہیں ٹھہرے
زہر پینا میرا مقدر ہے اور تیرے ہونٹ دل - نشین ٹھہرے
کس طرح تیرے آسْتان پہ رکوں جب نا پاؤں تلے زمیں ٹھہرے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

مجھ کو اتنا ضرور کہنا ہے وقت رخصت سلام سے پہلے
توڑ لوں رشتہ نظر میں بھی تو اُتَر آئے بام سے پہلے
یہ میری جان میرا وعدہ ہے کل کسی وقت شام سے پہلے
میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

پیر, 26 نومبر 2012
یہ متن رومن اردو میں پڑھیںYe Matan/Text Roman Urdu Mein Parhein

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
راہ آسان ہو گئی ہوگیتمہیں کتنا یہ بولا تھا
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.