شعراء 

قریب موت کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ


قریب موت کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
قضا سے آنکھ لڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

تھکی تھکی سی فضائیں بجھے بجھے تارے
بڑی اداس گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

نہیں امید کے ہم آج کی سحر دیکھیں
یہ رات ہم پہ کری ہے ذرا ٹھہر جاؤ

ابھی نا جاؤ کی تاروں کا دل دھڑکتا ہے
تمام رات پڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

پھر اس کے بعد کبھی ہم نا تم کو روکیں گے
لبوں پہ سانس اڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

دم فراق میں جی بھر کے تم کو دیکھ تو لوں
یہ فیصلے کی گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ

پیر, 26 نومبر 2012
یہ متن رومن اردو میں پڑھیںYe Matan/Text Roman Urdu Mein Parhein

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
کب چراغوں کی ضرورت ہےتمہیں کتنا یہ بولا تھا
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.