قریب موت کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
قریب موت کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
قضا سے آنکھ لڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
تھکی تھکی سی فضائیں بجھے بجھے تارے
بڑی اداس گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
نہیں امید کے ہم آج کی سحر دیکھیں
یہ رات ہم پہ کری ہے ذرا ٹھہر جاؤ
ابھی نا جاؤ کی تاروں کا دل دھڑکتا ہے
تمام رات پڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
پھر اس کے بعد کبھی ہم نا تم کو روکیں گے
لبوں پہ سانس اڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
دم فراق میں جی بھر کے تم کو دیکھ تو لوں
یہ فیصلے کی گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
پیر, 26 نومبر 2012