دھویا گیا تمام ہمارا غبارِ دل
گریے نے دل سے خوب نکالا بخارِ دل
اتنا نہیں کوئی کہ خبر اُس کی آ کے لے
کب سے بجھا پڑا ہے چراغِ مزارِ دل
صبر و قرار کب کا ہمارا وہ لے گیا
سمجھے تھے جس کو مایۂ صبر و قرارِ دل
کہتے ہیں داغِ عشق کسے ہم کو کیا خبر
یک قطرہ خونِ گرم تو ہے ہم کنارِ دل
مجبور ہوں میں کیونکے کروں ضبطِ گریہ آہ
نے اختیارِ چشم ہے، نے اختیارِ دل
آتا ہے جی میں پہلو میں دل کو چھُپا رکھوں
یاں تک کہ وہ کیا ہی کرے انتظارِ دل
رازِ دل اپنا کس سے کہوں ہائے مصحفی
ملتا نہیں کوئی مجھے تو راز دارِ دل
Posted on Apr 17, 2013
سماجی رابطہ