قلم پر قرض ہے جان کا ادا تو ہو رہا ہو گا
مگر گمنام گوشے میں کوئی تو رو رہا ہو گا
کوئی ہو گا کسی سچی اذیت کے نشے میں گم
کوئی جھوٹی خوشی کو بے اِرادَہ دھو رہا ہو گا
کسی کو یاد آئے جا رہی ہوگی گئی پٹ جھڑ
کوئی تازہ رتوں کے بیج دل میں بو رہا ہو گا
کوئی اکتا رہا ہو گا کسی پر شور محفل سے
کوئی جادو بھری تنہائیوں میں کھو رہا ہو گا
کہیں پَردیس میں بے خواب آنکھیں جاگتی ہونگی
کوئی اک یاد اوڑھے اپنے گھر میں سو رہا ہو گا
ہر اک پل کی خبر رکھنے کی ایسی کیا ضرورت ہے
بھری دنیا ہے اس میں کچھ نا کچھ تو ہو رہا ہو گا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ