تنہا ہے میری ذات کہیں سے آجاؤ ،
سن لو میری بات کہیں سے آجاؤ ،
دشمن بازی جیت رہا ہے چپکے سے ،
ہونے کو ہے مات کہیں سے آجاؤ ،
کچی انٹین اور عمارت گرے کی ،
اور اس پر برسات کہیں سے آجاؤ ،
دل کی بستی پر ہے خوف اندھیروں کا ،
ہو جائے نا رات کہیں سے آجاؤ ،
کچی عمر اس پر خواب محبت کے ،
کیا کیا ہیں جذبات کہیں سے آجاؤ ،
آنکھیں رستہ دیکھ رہی ہیں مدت سے ،
گردش میں ہیں حالات کہیں سے آجاؤ ،
موسم موسم لوگ بدلتے ہیں خواہش ،
دل پر ہیں صدمات کہیں سے آجاؤ … .
Posted on Apr 18, 2012
سماجی رابطہ