تپش ہے کیسی دسمبر کی ان ہواؤں میں
تپش ہے کیسی دسمبر کی ان ہواؤں میں
سلگ رہا ہے یہاں بدن بھی تو چھاؤں میں
نا آیا لوٹ کے اور انتظار چھوڑ گیا
کہاں تلاش کریں اس کو اب خلاؤں میں
نا دیکھا اس نے پلٹ کر نا میری بات سنی
خدایا اتنا اثر بھی نہیں صداؤں میں ! ! !
ہنسی دکھاوا ہے ، رشتہ ہے آنسوؤں سے میرا
کے میرا جنم ہوا ہے انہی گھٹاؤں میں
نظر ملا کے جتائی ہوئی غضب الفت
شمار ہم کو کیا اس نے بیوفاؤں میں
لٹا ہے کوئی ، کسی کا ہوا ہے قتل یہاں ؟
لہو برستا ہے ساون کی کیوں گھٹاؤں میں ؟
وفا بھی جرم ہے ساغر کے ہے گناہ عظیم
کڑی ہے اس کی سا دھر کی سزاؤں میں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ