لہو لہو کر کے

لہو لہو کر کے

عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرم سار ہوا تیری جستجو کر کے ،

سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلا ہے
چلیں گے ہم بھی مگر پیراہن رفو کر کے ،

مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دُکھی ہے چراغوں کی اَبْرُو کر کے ،

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے ،

اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے . . .

Posted on Feb 16, 2011