اسے میں بھول جانا چاہتا ہوں

اسے میں بھول جانا چاہتا ہوں

اسے میں بھول جانا چاہتا ہوں
سنو ! میں مسکرانا چاہتا ہوں
دُکھی رہنے کی عادت ہو گئی ہے
مگر اب گنگنانا چاہتا ہوں

پُرانے سب تعلق توڑ کر اب
نئی دنیا بسانا چاہتا ہوں
وہ نظمیں پاؤں سے لپٹی ہیں لیکن
میں ان سے جانِ چھڑانا چاہتا ہوں

وہ سب تحفے وہ سوکھے پھول سارے
میں اب ان کو جلانا چاہتا ہوں
میں اتنا پاس آتا ہوں تمھارے
میں جتنا دور جانا چاہتا ہوں

میرے ہمدم ، حقیقت ہے یہ میری
میں تیرے پاس آنا چاہتا ہوں
ابھرنے کی کوئی کشش نہیں ہے
کے اب میں ڈوب جانا چاہتا ہوں

Posted on Feb 16, 2011