اور بس . . . . . .
اک شخص مجھ کو جیت کے ہارا ہے اور بس
اتنا ہی زندگی کا خسارہ تھا اور بس . . . !
ڈر تھا تجھے کھونے کا ، اسی خوف سے اک رات
میں نے سسک کے تجھ کو پکارا تھا اور بس
کیسے کہوں کے اس کا ارادہ بدل گیا
سچ تو یہی ہے اس نے پکارا تھا اور بس . .
دنیا کو اس میں درد کی شدت کہاں ملے
آنکھوں سے ٹوٹتا ہوا تارا تھا اور بس
اب ان میں کوئی خواب سجانے نہیں مجھے
آنکھوں کو انتظار تمھارا تھا اور بس
پوچھا کے میں نے خواب میں دیکھی ہیں بارشیں
اس نے کہا کے ایک اشارہ تھا اور بس
لفظوں میں درد ہجر کو محسوس کر کے دیکھ
کہنے کو میں نے وقت گزارا تھا اور بس
پلکوں پہ اسکے ایک ستارہ تھا اور بس
زاد سفر یہی تو ہمارا تھا اور بس
بنجر سمتوں کی زمیں کیسے کھل اٹھی
تم نے تو میرا نام پکارا تھا اور بس
اک عمر میری ذات پہ سایہ فگن رہا
کچھ وقت ہم نے ساتھ گزارا تھا اور بس
اور بس . . . . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ