ایک شخص تیرے ہجر میں
جو درد کے صحرا میں اکیلا بھی بہت ہے
اس کے لیے دیوار کا سایہ بھی بہت ہے
دیکھا نہیں تنہائی میں تم نے کبھی اسکو
بچھڑے ہوئے لوگوں کو وہ رویا بھی بہت ہے
کچھ تجھ کو محبت پر یقین تھا نا وفا پر
کچھ دکھ میری تقدیر میں لکھا بھی بہت ہے
بینائی اندھیروں سے بھلا کیسے بچاتا
ایک شخص تیرے ہجر میں جاگا بھی بہت ہے
وہ اور ہیں جو چھو کا تجھے دیکھنا چاہیں
مجھ کو تو میرے خواب کی دنیا بھی بہت ہے
کردار سے محروم تھا یہ شہر سو اس نے
ہم کو در و دیوار پہ لکھا بھی بہت ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ