بسا ہوا تھا جو سینے میں آرزو کی طرح
رگوں میں گونج رہا ہے وہ اب لہو کی طرح
میں اسکے دل میں چھپی خواہش بھی جان گیا
کھلا وہ مجھ سے گریبان بے رفو کی طرح
کوئی نظر بھی اُٹھے اس پہ دل دھڑک جائے
میں اسے پیار کروں اپنی آبْرُو کی طرح
بہت دنوں میں جو دیکھا اسے تو کیا کہیے !
لگی ہے اسکی خاموشی بھی گفتگو کی طرح
مجھے جدا نا سمجھنا چمن سے اہل چمن !
میں رائیگاں ہی سہی ، شاخ بے نمو کی طرح
غم جہاں تھا کے محسن اجاڑ موسم تھا ؟
سمٹ گیا وہ سمندر بھی آرزو کی طرح . . . !
Posted on Apr 06, 2012
سماجی رابطہ