بھول جائیں تو آج بہتر ہے

بھول جائیں تو آج بہتر ہے
سلسلے قرب کے جدائی کے
بجھ چکی خواہشوں کی قندیلیں
لٹ چکے شہر آشْنائی کے

رائیگاں سناٹوں سے کیا لینا
زخم ہو ، پھول ہو ، ستارے ہو
موسموں کا حساب کیا رکھنا
جس نئے جیسے بھی دن گزارے ہو

زندگی سے شکایتیں کیسی
اب نہیں ہیں اگر گلے تھے کبھی
بھول جائیں کے جو ہوا سو ہوا
بھول جائیں کے ہم ملے تھے کبھی

اکثر اوقات چاہنے پر بھی
فاصلوں میں کمی نہیں ہوتی
بعض اوقات جانے والوں کی
واپسی سے خوشی نہیں ہوتی . . . !

Posted on May 15, 2012