صنم نے چشم کو جس راہ کا انتظار دیا
ہم ایسی تھے کے یہ جیون وہیں گزر دیا
گئی وہ عمر مگر ٹِیس نا گئی دل سے
دیا جو زخم وفا نے سو یادگار دیا
جہاں کسی کو لگایا ہے اپنے سینے سے
اسی نے تاک کے خنجر وہیں اُتار دیا
بھلے ہی چھوڑ دیا راستے میں یاروں نے
ہماری ذات کا آخر کو اعتبار دیا
دھلا دھلا سا یہ چہرہ ، یہ سرخ سی آنکھیں
تمھارے غم نے ہمیں اور بھی نکھار دیا
میرے بدن پہ یہ آنکھیں کچھ ایسی لگتی ہے
کسی کی قبر پہ جیسے ہو سوگوار دیا
دلوں سے کھیلنا عادت بڑی خراب سی ہے
کسی نے کھیل کے تم سے تمہیں سدھر دیا
Posted on Aug 08, 2011
سماجی رابطہ