غالب کی طرح منت دربان نہیں کرتے

ہر یاد کو یوں زخم بناتے نہیں دل کا
ہر تیر کو پیوست رگ جان نہیں کرتے

یہ مسئلہ اب اہل محبت کا ہے اپنا
مرتے ہیں تو کچھ آپ پر احسان نہیں کرتے

خط لائیں نا لائیں تیرا ہم نامہ بروں کو
بس دکھاتے رہتے ہیں پریشان نہیں کرتے

ایسے بھی تو رکھتے نہیں خنجر پے گلوں کو
اتنا بھی تو قاتل کو پشیمان نہیں کرتے

کب شمعیں جلاتا ہے شب ماہ میں کوئی
تو آئی تو ہم گھر میں چراغاں نہیں کرتے

لوگوں کو گمان تک نہیں ہوتا ہے جنون کا
ہم دل کی طرح چاک گریباں نہیں کرتے

ہم اٹھ کے چلے آتے ہیں یارو در جاناں سے
غالب کی طرح منت دربان نہیں کرتے

Posted on Aug 03, 2011