ہمارے دم سے ہی آوارگی شب تھی ہمیں

سفر میں راہ کے آشوب سے نا ڈر جانا
ملے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا

یہ اک اشارہ ہے آفت ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا

یہ انتقام ہے دشت بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا

تمہارا قرب بھی دوری کا استعارہ ہے
کے جیسے چاند کا تالاب میں اتر جانا

ہم اپنے عشق کی اب اور کیا شہادت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا

میرے یقین کو بڑا بعد گمان کر کے گیا
دعا نیم شبی تیرا بے اثر جانا

ہمارے دم سے ہی آوارگی شب تھی ہمیں
عجیب لگتا ہے اب شام ہی سے گھر جانا

زمانہ بیت گیا ترک عشق کو تشنہ
مگر گیا نا ہمارا ادھر ادھر جانا !

Posted on Sep 16, 2011