حضور یار میں حرف التجا کے رکھے تھے

حضور یار میں حرف التجا کے رکھے تھے
چراغ سامنے جیسے ہوا کے رکھے تھے

بس اک اشک ندامت نے صاف کر ڈالے
وہ سب حساب جو ہم نے اٹھا رکھے تھے

تمہی نے پاؤں نا رکھا وگرنہ وصل کی شب
زمین پے ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے

بکھر رہے تھے سو ہم نے اٹھا لیے خود ہے
گلاب جو تیری خاطر سجا کے رکھے تھے

ہوا کے پہلے ہی جھونکے سے ہار مان گئے
وہی چراغ جو ہم نے بچا کے رکھے تھے

مٹا سکی نا انہیں روز و شب کی بارش بھی
دلوں میں نقش جو رنگ حنا کے رکھے تھے

حصول منزل دنیا کچھ ایسا کام نا تھا
مگر جو راہ میں پتھر انا کے رکھے تھے . . . !

Posted on Nov 25, 2011