اک شب آنکھ کنارے

اک شب آنکھ کنارے …

نیند سے پہلے آؤ ،

خواب سفر پر ساتھ چلیں گے

اک دوجے کا ہاتھ پکڑ کر …

جھوٹے سچے عہد کریں گے

میں کچھ ان دیکھے سپنوں کی . .

انگلی تھام کے لے آؤں گی ،

تم کچھ رو پہلی تعبیریں . .

زاد سفر کے طور پر لانا … …

ہو سکتا ہے خواب سفر میں

بارش بھی ہو ، آندھی بھی ہو

ہو سکتا ہے طوفانوں نے ،

شرط سفر سے باندھی بھی ہو …

ہو سکتا ہے کچھ جگنوں ، کچھ تارے

اپنی راہ میں آئیں

ہو سکتا ہے گھور اندھیرا میں ہی

ہم دونوں کھو جائیں

اس جنگل میں ندی کنارے

تھوڑے سپنے بو آئیں گئے

اور بہتی ندی میں دونوں

غم کی گرد بھی دھو آئیں گئے

اک برگد کے پیڑ کے نیچے

تیرے شانے پر سر رکھ کر

میں اپنے سب دکھ رو لوں گی

تم اپنی جلتی آنکھوں پر

میری برف ہتھیلی رکھنا . . !

تم یادوں کے روشن جگنوں

اپنی مٹھی میں بھر لینا

میں بھی آنچل کے پہلوں میں

اجلی یادیں رکھ لاؤں گی

اس دوران ہی خواب کی دیوی

ہم دونوں سے ہاتھ چھڑا کر

سچ کی بھیڑ میں کھو جائے گی . . !

چاھے سچ کتنا کڑوا ہو

دکھ کو مات تو ہو جائے گی . . !

پھر تم نیند نگر کو جانا

میں خوابوں میں رہ جاؤں گی

اک شب آنکھ کنارے

نیند سے پہلے آؤ

خواب سفر پر ساتھ چلیں گئے . . . !

Posted on Mar 05, 2012