اک شخص پاس رہ کے بھی سمجھا نہیں مجھے
اس بات کا ملال ہے شکوہ نہیں مجھے
میں اس کو بیوفائی کا الزام کیسے دوں
اس نے تو ابتدا سے ہی چاہا نہیں مجھے
کیا کیا اُمیدیں باندھ کے آیا تھا سامنے
اس نے تو آنکھ بھر کے بھی دیکھا نہیں مجھے
پتھر سمجھ کے پاؤں کی ٹھوکر لیا
افسوس تیری آنکھ نے پرکھا نہیں مجھے
کب ٹہھرنا تھا مجھ کو حسن آج اس کے پاس
اچھا ہوا کے اس نے بھی روکا نہیں مجھے
Posted on Sep 26, 2011
سماجی رابطہ