اب ان سے خیالوں میں ہی ہو جاتی ہیں باتیں

گم شدہ محبت کے خوابوں کی طرح ہے
وہ روح کے سحرا میں سرابوں کی طرح ہے

وہ ذیست کے مکتب میں نسابوں کی طرح ہے
پڑھتا ہوں اسے روز کتابوں کی طرح ہے

اب ان سے خیالوں میں ہی ہو جاتی ہیں باتیں
گو بیچ میں پردہ سا حجابوں کی طرح ہے

اس شخص کے لہجے میں شیشے کی کھنک ہے
رگ رگ میں اترتا ہے شرابوں کی طرح ہے

اس شخص کے پیکر میں ہے شاخوں کی لچک سی
اس شخص کا چہرہ بھی گلابوں کی طرح ہے

جو وصل کی راتوں میں ہے اک ماہ منور
فرقت میں وہی شخص عذابوں کی طرح ہے

Posted on Sep 24, 2011