اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر

میں دل پر جبر کرونگا ، تجھے بھلا دونگا
مرونگا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دونگا

یہ تیرگی میرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیے بجھا دونگا

ہوا کا ہاتھ بٹائوں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دونگا

وفا کرونگا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پر قطبہ نیا سجا دونگا

اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر
کے درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دونگا

تو آسمان کی صورت ہے ، گر پڑیگا کبھی
زمین ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسْرا دونگا

بڑھا رہی ہے میرے دکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تیری تصویر تک جلا دونگا

Posted on Jul 23, 2011