تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا

اور اب اس بات پر بھی مجھ سے میرے یار الجھتے ہیں
کے میں ہر بات سن لیتا ہوں جزباتی نہیں ہوتا

گرفتار وفا ، رونے کا کوئی ایک موسم رکھ
جو نالا روز بہہ نکالے وہ برساتی نہیں ہوتا

تجھے دل میں جگہ دی ہے نظر سے دور کیا کرتے
جو مرکز میں ٹھہر جائے وہ مضافاتی نہیں ہوتا

بچھڑنے کا اِرادَہ ہو تو مجھ سے مشورہ کرنا
محبت میں کوئی بھی فیصلہ زاتی نہیں ہوتا

Posted on Jul 23, 2011