آغاز عشق جب تیرا انجام آئے گا
کیا کیا نا اپنی ذات پر الزام آئے گا
کیسی اذیتوں سے گزر جائے گا یہ دل
کس دکھ سے میرے لب پے تیرا نام آئے گا
جا تو رہا ہے دل تیرے اقرار کی طرف
میں جانتا ہوں لوٹ کے ناکام آئے گا
ہونٹوں کا لمس دے کے مجھ اس نے یہ کہا
لے جا اسے سفر میں تیرے کام آئے گا
جب مستحب ہوگا دعاؤں کا سلسلہ
اک اور دشت حجر میرے نام آئے گا
Posted on Sep 24, 2011
سماجی رابطہ