میرے ہمسفر تیری نظر ہیں میرے جذبہ دل کی شدتیں
میری چاھ میری محبتیں میرے سجدے میری عبادتیں
وہ جو ساتھ چلنے کا خواب تھا ، کہیں رہ گیا کہیں کھو گیا
کھو گیا میرا ہمسفر ، رہیں پاس اب نا وہ چاہتیں
وہ گلاب تھے کے خطاب تھے ، تیرے حرف حرف میں خواب تھے
تیرا تازہ خط بھی ملا مگر نہیں اس میں پہلی سی شدتیں
میرے چاند تو ہی بتا مجھے کہاں ہے وہ میرا زمانہ ساز
کہاں تھک کے رہ گیا کارواں کہاں رہ گئیں میری سنگتیں
وہ جو موسموں کا حبیب تھا میری پیاسی آنکھ کا خواب تھا
وہی خواب اب بھی عزیز ہے ، کرے اب بھی دل پر حکومتیں . . .
Posted on Jul 15, 2011
سماجی رابطہ