میرے ہمسفر تیری نظر ہیں میری

میرے ہمسفر تیری نظر ہیں میری عمر بھر کی یہ دولتیں
میرے شاعر میری صداقتیں میری دھڑکنیں میری چاہتیں

تجھے جذب کرلوں لہو میں میں کے فراق کا نا رہے خطر
تیری دھڑکنوں میں اُتار دوں میں یہ خواب خواب رفاقتیں

یہ ردائے جان تجھے سونپ دوں کے نا دھوپ تجھ کو کڑی لگے
تجھے دکھ نا دین میرے جیتے جی سر دشت غم کے تمازتیں

میری صبح تیری سدا سے ہو میری شام تیری ضیا سے ہو
یہی طرز پرسش دل رکھیں تیری خوشبوؤں کی سفارتیں

کوئی ایسی بزم بہار ہو میں جہاں یقین دلا سکوں
کے تیرا ہی نام ہے فصل گل کے تجھی سے ہیں یہ کرامتیں

تیرا قرض ہیں میرے روز و شب میرے پاس اپنا تو کچھ نہیں
میری روح میری متاع فنا میری سانس تیری امانتیں .

Posted on Jul 15, 2011