کیا کیا ہمارے خواب تھے ، جانے کہاں پہ کھو گئے ،
تم بھی کسی کے ساتھ ہو ، ہم بھی کسی کے ہو گئے ،
جانے وہ کیوں تھے ، کون تھے ؟ آئے تھے کس لیے یہاں ،
وہ جو فشار وقت میں ، بوجھ سا ایک دھو گئے ،
اس کی نظر نے یوں کیا گرد ملال جان کو صاف ،
اَبْر برس کے جس طرح ، سارے چمن کو دھو گئے ،
کٹنے سے اور بڑھتی ہے اٹھے ہوئے سرو کی فصیل ،
اپنے لہو سے اہل دل ، بیج یہ کیسے بو گئے ،
جن کے بخیر اک پل ، جینا بھی مُحال تھا ،
شکلیں بھی ان کی بجھ گئیں ، نام بھی ان کے کھو گئے ،
آنکھوں میں بھر کے رت جگے ، رستوں کو دے کے دوریاں ،
امجد وہ اپنے ہمسفر ، کیسے مزے سے سو گئے . . . !
Posted on Apr 11, 2012
سماجی رابطہ