لبوں پہ پھول کھلتے ہیں کسی کے نام سے پہلے

لبوں پہ پھول کھلتے ہیں کسی کے نام سے پہلے
دلوں کے دیپ جلتے ہیں چراغ - ای شام سے پہلے

کبھی منظر بدلنے پر بھی قصہ پتہ نہیں چلتا
کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے

یہی تارے تمھاری آنکھ کی چلمن میں رہتے تھے
یہی سورج نکلتا تھا تمھارے بام سے پہلے

ہوئی ہے شام جنگل میں پرندے لوٹے ہونگے
اب ان کو کس طرح روکیں نواح دام سے پہلے

یا سارے رنگ مردہ تھے تمھاری شکل بننے تک
یا سارے حرف مہمل تھے تمہارے نام سے پہلے

ہوا ہے وہ اگر منصف تو امجد انتہائیں ہم
سزا تسلیم کرتے ہیں کسی الزام سے پہلے . . . !

Posted on Apr 11, 2012