منزل بھی کھو چکا ہے سفر ہی نہیں رہا

منزل بھی کھو چکا ہے سفر ہی نہیں رہا
میری کسی دعا میں اثر ہی نہیں رہا

جب سے ہوئی ہے دل کو خبر ہجر یار کی
لفظوں کو جوڑنے کا ہنر ہی نہیں رہا

تو کیا چلا گیا کے میں سب کچھ ہی کھو چکا
منزل کو چھوڑ دے کے سفر ہی نہیں رہا

آوارَگی میں لطف کہاں اب عذاب ہے
پر کیا کروں گا لوٹ کے ، گھر ہی نہیں رہا

گنتی کے دن ہیں موت میں لیکن یہ وقت بھی
کچھ ایسے تھم گیا ہے گزر ہی نہیں رہا

دفنا دو مجھ کو موت سے پہلے ہی دوستو
اب میں کسی کا جان جگر ہی نہیں رہا

Posted on Aug 05, 2011