سخی بیٹھے رہے کوئی گداگر ہی نہیں آیا

سخاوت کا نمود افروز منظر ہی نہیں آیا
سخی بیٹھے رہے کوئی گداگر ہی نہیں آیا

یہ سوچا تھا تیری خاطر کوئی موتی نکالو گا
میں جس رستے میں تھا اس میں سمندر ہی نہیں آیا

پہن کر آئینے پھرتی رہی دیوانگی اپنی …
تمنا تھی بہت جس کی وہ پتھر ہی نہیں آیا …

چمک جس کی بلا لیتی عقابوں کو نشیمن سے
فضاؤں میں کوئی ایسا کبوتر ہی نہیں آیا

دفن ہے رہ گئے دل میں خزانے سارے
سمندر کیا کرے کوئی شناور ہی نہیں آیا

دیا ہی جب نہیں ہو گا ہوا کس کو بجھائے گی
چراغ میں اب کے جلا کے ہی نہیں آیا . . . !

Posted on Dec 26, 2011