تیرے پاس آنے کو جی چاہتا ہے

تیرے پاس آنے کو جی چاہتا ہے
نئے زخم کھانے کو جی چاہتا ہے

ادھر آئے شاید وہ موج ترنم
غزل گنگنانے کو جی چاہتا ہے

زمانہ میرا آزمایا ہوا ہے
تجھے آزمانے کو جی چاہتا ہے

وہی بات رہ رہ کے یاد آ رہی ہے
جسے بھل جانے کو جی چاہتا ہے

لبوں پر میرے کھلتا ہے تبسم
جب آنْسُو بہانے کو جی چاہتا ہے

کئی مرتبہ دل پہ بجلی گری ہے
مگر مسکرانے کو جی چاہتا ہے

تکلف نا کر آج برق تجلی
نشیمن جلانے کو جی چاہتا ہے

رخ زندگی سے نقاب اُلٹ کر
حقیقت دکھانے کو جی چاہتا ہے

Posted on Oct 05, 2011