بھی خفا ہو لوگ بھی بے رحم ہیں دوستو

تم بھی خفا ہو لوگ بھی بے رحم ہیں دوستو
اب ہو چلا یقین کے برے ہم ہیں دوستو

کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے کیا کریں
آنکھیں تو دشمنوں کی بھی پُرنم ہیں دوستو

اپنائے سوا ہمارے نا ہونے کا غم کسے
اپنی تلاش میں تو ہم ہی ہم ہیں دوستو

کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو

اس شہر آرزو سے بھی باہر نکل چلو
اب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں دوستو

سب کچھ سہی ’ فراز ’ پر اتنا ضرور ہے
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں دوستو

Posted on Feb 16, 2011