یہ خود اذیتی کب تک فراز

چلو عشق نہیں ، چاہنے کی عادت ہے
کیا کریں کے ہمیں دوسرے کی عادت ہے

تو اپنے شیشہ گری کا نا کر ہنر ضائع
میں آئینہ ہوں ، مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے

وصال میں بھی وہی فاصلے سراب کے ہیں
کے اسکو نیند ، مجھ کو رت جاگے کی عادت ہے

تیرا نصیب ہے اے دل سدا کی محرومی ! !
نا وہ سخی ہے ، نا تجھے مانگنے کی عادت ہے

یہ خود اذیتی کب تک فراز
تو بھی اسے نا کر یاد ، جسے بھولنے کی عادت ہے

Posted on Aug 19, 2011