کل رات بزم میں جو ملا گل بدن سا تھا
خوشبو سے اس کے لفط تھے چہرہ چمن سا تھا
دیکھا اُسے تو بول پڑے اس کے خد و خال
پوچھا اُسے تو چپ سا رہا ، کم سخن سا تھا
تنہائیوں کی رت میں بھی لگتا تھا مطمئن
وہ شخص اپنی ذات میں اک انجمن سا تھا
سوچا اسے تو میں کئی رنگوں میں کھو گیا
عالم تمام اس کے حسین پیراہن سا تھا
جو شاخ شاخ تھیں وہ اسی کے لبوں سی تھی
جو پھول کھل گیا تھا وہ اسی کے دھیان سا تھا
وہ سادگی پہن کے بھی دل میں اُتَر گیا
اس کے ہر اک ادا میں عجب بھول پن سا تھا
آسان سمجھ رہے تھے اُسے شہر جان کے لوگ
مشکل تھا اس قدر کے میرے اپنے فن سا تھا
وہ گفتگو تھی اس کی ، اسی کے لیے ہی تھی !
کہنے کو یوں تو میں بھی شریک سخن سا تھا
تارے تھے چاندنی میں کہہ تہمت کے داغ تھے
محسن کل آسمان بھی میرے کفن سا تھا
کل رات بزم میں جو ملا گل بدن سا تھا
Posted on Aug 19, 2011
سماجی رابطہ