زمین پر چل نا سکا آسْمان سے بھی گیا
کٹا کے پیر کو پرندہ اُڑان سے بھی گیا
تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا
پرائی آگ میں خود کو جلا کے کیا ملا تجھ کو
اسے بچا نا سکا اپنی جان سے بھی گیا
بھلانا چاہا تو بھلانے کی انتہا کر دی
وہ شخص اب میرے وہم و گمان سے بھی گیا
کیسی کے ہاتھ کا نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں
ہدف کو چھو نا سکا اور کمان سے بھی گیا
Posted on Jul 26, 2011
سماجی رابطہ