ظلم سہہ کر بھی سمجھتا ہوں کے تو میرا ہے

ظلم سہہ کر بھی سمجھتا ہوں کے تو میرا ہے
میرے دشمن تیرے چہرے پے لہو میرا ہے

صبح دم شہر کی سورش تیرے دم سے ہو گی
رات کے پچھلے پہر الم ہوں میرا ہے

میرے ہاتھوں میں چھپے زخم سے پہچان مجھے
تیرے دامن پے بھی احسان رفو میرا ہے

گھر گیا ہوں تلاطم میں بھی زندان کی طرح
حلقہ موج رواں طوق گالوں میرا ہے

اتنی شہرت بھی کہاں چاہی تھیں خود سے میں نے
اپنے ہی شہر کا ہر شخص عدو میرا ہے

دھوپ چھاؤں کی یہ رٹ دل میں ٹھہر جانے ڈے
عکس تیرا ہے تو سایہ لب ای جو میرا ہے

پتھروں سے ہے محبت مجھے یوں بھی محسن
سنگدل شہر میں ایک آئینہ رُو میرا ہے . . . .

Posted on Sep 10, 2011