محبت ہی کیوں نہ ہو

داراستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجئے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو

چھوڑا نہ مجھ میں صنف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار نقش محبت ہی کیوں نہ ہو

ہے مجھ کو تجھ سے تذکرہ غیر کا گلا
ہر چند سے سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو

پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا
یوں ہو تو چارہ غم الفت ہی کیوں نہ ہو

ڈالا نہ بے کسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں، خجالت ہی کیوں نہ ہو

ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

ہنگامہ زبونی ہمت ہے افعال
حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

وارستگی بہانہ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر، نہ غیر سے وحشت ہی کیوں نہ ہو

مٹتا ہے فوت فرصت ہستی کا غم کوئی
عمر عزیز صرف عبادت ہی کیوں نہ ہو

اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسد
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو

Posted on May 12, 2011