اپنی ہے روانی میں بہتا نظر آتا ہے
یہ شہر بلندی سے دریا نظر آتا ہے
دیتا ہے کوئی اپنے دامن کی ہوا اسکو
شعلہ سا میرے دل میں جلتا نظر آتا ہے
اس ہاتھ کا تحفہ تھا اک داغ میرے دل پر
وہ داغ بھی اب لیکن جاتا نظر آتا ہے
آنکھوں کے مقابل ہے کیسا یہ عجب منظر
صحرا تو نہیں ہے لیکن صحرا نظر آتا ہے
اک شکل سی بنتی ہے ہر شب میری نیندوں میں
اک پھول سا خوابوں میں کھلتا نظر آتا ہے
آنکھوں نے نہیں دیکھی اس جسم کی رعنائی
یہ چار طرف جس کا سایہ نظر آتا ہے
دریا کو کنارے سے کیا دیکھتے رہتے ہو
اندر سے کبھی دیکھو کیسا نظر آتا ہے
Posted on Sep 22, 2011
سماجی رابطہ