چلمن سے لگے بیٹھے ہیں شوق دیدار لیے

چلمن سے لگے بیٹھے ہیں شوق دیدار لیے
کب اٹھے گا پردہ سَربَسْتَہ رازوں سے

دھوپ کی تمازت نے بدل دیا رنگ اپنا
ذوق حیا نے بٹھا رکھا ہے خاموشی سے

محفل شب و روز کیسے گزر جاتی ہے چپ چاپ
دلداری دلدار کی ہم نواحی کی امید سے

آرزوئیں اور اُمنگیں شکستہ دلی پر ہیں ختم
چاک گریباں چاک ہے خونی آرزوؤں سے

شب ہجراں میں سنگ راہ ہونے کا ہے یقین
وفا کا دامن چھوٹا نہیں ارزاں زندگی سے

Posted on Oct 06, 2011