دلوں میں پھر سے نئی چاہتیں سجا بیٹھے
گلے ملے تو سبھی رنجشیں بھلا بیٹھے
وہ جس کو پیار کا مفہوم تک نہیں معلوم
اسی کے در پہ ہے کیوں جان و دل لٹا بیٹھے
خبر بھی تھیں کے ہوائیں وفا نہیں کرتیں
انہی کے دوش پر پھر کیوں دیا جلا بیٹھے
یہ نہیں قرب میں بے اختیار روتے ہیں
جو بات دل نے چھپائی وہی بتا بیٹھے
جو پتھروں کے حوالے سے معتبر ہے بہت
ہم اسی شہر میں شیشے کا گھر بنا بیٹھے
Posted on Jul 29, 2011
سماجی رابطہ