حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمین پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کے جس میں کوئی پتھر نہیں ہے

حیران ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا

اس بندہ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایہ
جو بھوک میں بھی لقمہ تر پر نہیں گرتا

کائی ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستون پر
بھونچال بھی آئے تو میرا گھر نہیں گرتا

Posted on Feb 16, 2011