ان جھیل سی گہری آنکھوں میں

ان جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو

اس جھیل کنارے پل دو پل
اک خواب کا نیلا پھول کھلے
وہ پھول بہا دیں لہروں میں
اک روز کبھی ہم شام ڈھلے
اس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اس وقت کہیں ان آنکھوں میں اس بسرے پل کی یاد تو ہو

ان جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو

پھر چاھے عمر سمندر کی
ہر موج پریشان ہو جائے
پھر چاھے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہو جائے
پھر چاھے پھول کے چہرے کا
ہر درد نمایاں ہو جائے
اس جھیل کنارے پل دو پل وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آذاد تو ہو
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو . . . !

Posted on Feb 20, 2012