عشق وہ کار مسلسل ہے نہیں جس کی اَخِیْر

ہم نہیں کہتے ہماری ، تیری دنیا ہو جائے ،
اتنے رنگوں میں کوئی رنگ تو اپنا ہو جائے ،

عشق وہ بلا ہے کے کرے جس کی طلب ،
اس کو معلوم نا ہو ، شہر میں چرچا ہو جائے ،

دو ستاروں کو جو دیکھوں تیری آنکھیں بن جائیں ،
چاند کو دھیان میں لاؤ تیرا چہرہ ہو جائے ،

ہر دوراہے پہ نگہبان کھڑی ہے قسمت ،
کیسے ممکن ہے کے ہر شخص کا سوچا ، ہو جائے ،

ہم کو ہر بزم میں ، ہر حال میں سچ کہنا ہے ،
شہر کا شہر خفا ہوتا ہے ، اچھا ہو جائے ،

عشق وہ کار مسلسل ہے نہیں جس کی اَخِیْر ،
اس کی توفیق ہے جس شخص سے جتنا ہو جائے ،

حسن کی آنکھ وہ تشیع طلب ہے امجد ،
بھیڑ ہو چاروں طرف اور کوئی تنہا ہو جائے . . . !

Posted on Apr 11, 2012