کبھی ہم خوبصورت تھے
کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی
خوشبو کی مانند
سانس ساکن تھی
بہت سے انکہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
کبھی ہم خوبصورت تھے .
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے
لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے لیکن
ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت جب کرن کے
ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے امی تتلیوں کے پر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کے ہم کو
تتلیوں کے جگنوں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنوں
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت رنگ میں دبی
ہوا کے ساتھ کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ