کل چودھویں کی رات تھی ، شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے ، کچھ نے کہا چہرہ تیرا
ہم بھی وہیں موجود تھے ، ہم سے بھی سب نے پوچھا
ہم ہنس دیے ہم چپ رہے ، منظور تھا پردہ تیرا
اس شہر میں کس سے ملیں ؟ ہم سے تو چھوٹی محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ، ہر شخص دیوانہ تیرا
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے ، پربت تیرے ، بستی تیری ، صحرا تیرا
ہم اور رسم بندگی ؟ آشُفْتَگی ؟ افتادگی ؟
احسان ہے کیا کیا تیرا ؟ اے حسن بے پرواہ تیرا
وہ اشک جانے کس لیے ، پلکوں پہ آ کر ٹک گئے
الطاف کی بارش تیری ، اکرام کا دریا تیرا
ہم پر یہ سختی کی نظر ؟ ہم ہیں فقیر راہگزر
رستہ کبھی روکا تیرا ؟ دامن کبھی تھاما تیرا ؟
بے درد سنانی ہو تو چل ، کیا اچھی کہتا ہے غزل
عاشق تیرا ، رسواء تیرا ، شعر تیرا ، انشا تیرا
کل چودھویں کی رات تھی ، شب بھر رہا چرچا تیرا
Posted on Oct 06, 2011
سماجی رابطہ