خود اپنے لیے بیٹھ کے سوچیں گے کسی دن

خود اپنے لیے بیٹھ کے سوچیں گے کسی دن
یوں ہے کی تجھے بھول کے دیکھیں گے کسی دن
بھٹکے ہوئے پھرتے ہیں کئی لفظ جو دل میں
دنیا نے دیا وقت تو لکھیں گے کسی دن
ہیل جائینگے اک بار تو عرشوں کے در و بام
یہ خاک نشین لوگ جو بولینگے کسی دن
آپس کی کسی بات کا ملتا ہی نہیں وقت
ہر بار یہ کہتے ہیں کے بیٹھینگے کسی دن
جان تیری یاد کے بے نام پرندے
شاخوں پہ میرے درد کی اتریں گے کسی دن
جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
آنکھوں میں تیری ڈوب کے دیکھیں گے کسی دن
خوشبو سے بھری شام میں جگنو کے قلم سے
اک نظم تیرے واسطے لکھیں گے کسی دن
سوئیں گے تیری آنکھ کی خلوت میں کسی رات
سائے میں تیری زلف کے جاگیں گے کسی دن
خوشبو کی طرح ، اصل صباء خاک نما سے
گلیوں سے تیرے شہر کی گزریں گے کسی دن
امجد ہے یہی اب کے کفن باندھ کے سر سے
اس شہر ستم گر میں جائینگے کسی دن

Posted on Sep 29, 2011