خوشبوں کی رنگو کی اک بہار ہو جیسے

خوشبوں کی رنگو کی اک بہار ہو جیسے

آرزو کے چہرے پہ اک نکھار ہو جیسے

لفظ کی حقیقت بھی زیر نگار ہو جیسے

جگمگاتے تاروں کی اک قطار ہو جیسے

جگمگاتے تاروں پہ روشنی کا ہالہ ہو

پھول کے گالوں میں اک جگنوؤں کی مالا ہو

رات کے اندھیرے کو چاند نے سنبھالا ہو

سونے جیسے پیکر کو چاندنی میں ڈھالہ ہو

رات اپنی پلکوں پہ آرزو جماعتی ہے

آرزو پہ اک پردہ چاندنی گراتی ہے

چاندنی کی اوٹ میں وہ پھر مجھے بلاتی ہے

ریشمی لبادہ بھی خود بخود اُترتا ہے

اس بدن کا ہر تارا کام ایسا کرتا ہے

چودھویں کا چاند اس کو دیکھتے ہی مرتا ہے

چوڑیوں کی کھن کھن ہو

شاخ جیسی بانہیں ہوں

گرم گرم سانسیں ہوں

سسکیاں ہوں آہیں ہوں

چاندی سی منزل ہو

رات جیسی راہیں ہوں

پیار کے بدن پہ بس پیار کی نگاہیں ہوں

چوڑیوں کی کھن کھن اب دیر تک جگائی گی

یاد کے دریچوں سے جو ہوا بھی آئی گی

رات کے اندھیرے میں دیر تک ستائے گی

چوڑیوں کی کھن کھن اب دیر تک رلائے گی

Posted on Sep 27, 2011