خوشحال سے تم بھی لگتے ہو

خوشحال سے تم بھی لگتے ہو

خوشحال سے تم بھی لگتے ہو ، یوں افسردہ تو ہم بھی نہیں
پر جاننے والے جانتے ہیں ، خوش ہم بھی نہیں خوش تم بھی نہیں

تم اپنی خودی کے پہرے میں ، اور دم غرور میں جکڑے ہوئے
ہم اپنے زعم کے نرغے میں ، انا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے

اک مدت سے غلطاں پیچاں، تم ربط و گریز کے دھاروں میں
ہم اپنے آپ سے الجھے ہوئے ، پچھتاوے کے انگاروں میں

محصور تلاطم آج بھی ہو ، گو تم نے کنارے ڈھونڈ لیے
طوفان سے سنبھلے ہم بھی نہیں ، کہنے کو سہارے ڈھونڈ لیے

خاموش سے تم ہم مہر با - لب ، جگ بیت گئے تک بات کیے
سنو کھیل اَدُھورا چھوڑتے ہیں ، بنا چل چلے بنا مات کیے

جو بھاگتے بھاگتے تھک جائیں ، وہ سائے رک بھی سکتے ہیں
چلو توڑو قسم اقرار کریں ، ہم دونوں جھک بھی سکتے ہیں . .

Posted on Feb 16, 2011