یوں ماتمی سے لباس میں کوئی آہ و فگن ہے آج بھی
جیسے چشم تر میں خواب کوئی پریشان ہے آج بھی
میں زندگی کی راہ گزر پر در باڈَر ہوں اس لیے
کے محبتوں کے شہر میں دل بے مکان ہے آج بھی
تیری آرزو ہے بہت مگر ، میری پہنچ نہیں ہے اس قدر
میری خواہشوں کے واسطے تو آسمان ہے آج بھی
میں تَوحِید کے ہر نصاب سے ویسے تو مسلمان ہوں
پر تجھے پوجنے کی بات ہے تو دل بے ایمان ہے آج بھی
تیری انجمن ، تیرا ہر کرم ، تیری چاہتیں تو چھن گئیں
مگر درد جو میرا نصیب تھا ، وہ مہربان ہے آج بھی
تیری اذیتوں کا سوال ہے تو مجھے کل بھی ضبط پہ ناز تھا
تجھے کوسنے کی بات ہے تو دل بے زبان ہے آج بھی
کبھی درد حد سے بڑھا بھی تو میں تیری حد سے بڑھا نہیں
میری تو سانسیں کی تسبیحوں میں اک تو ہی رواں ہے آج بھی
سو بادلوں کے سلسلے میری چھت پہ برس کے چلے گئے
پر جلا جلا ، دھواں دھواں میرا آشیاں ہے آج بھی
مجھے کل ملی تھے کچھ گلاب جو تیرے لیے یہ کہہ گئے
کے تیرے انتظار میں سوگوار گلشن کا سماں ہے آج بھی
میں تَوحِید کے ہر نصاب سے ویسے
Posted on Aug 22, 2011
سماجی رابطہ