سانس تک نہیں لیتے ہیں تجھے سوچتے وقت
ہم نے اس کام کو بھی کل پہ اٹھا رکھا ہے
روٹھ جاتے ہو تو کچھ اور حسین لگتے ہو
ہم نے یہ سوچ کے ہی تم کو خفا رکھا ہے
تم جسے روتا ہوا چھوڑ گئے تھے ایک دن
ہم نے اس شام کو سینے سے لگا رکھا ہے
چین لینے نہیں دیتا یہ کسی طور مجھے
تیری یادوں نے جو طوفان اٹھا رکھا ہے
جانے والے نے کہا تھا کے وہ لوٹ آئے گا ضرور
ایک اسی آس پہ دروازہ کھلا رکھا ہے
تیرے جانے سے جو ایک دھول اٹھی تھی غم کی
ہم نے اس دھول کو آنکھوں میں بسا رکھا ہے
مجھ کو کل شام سے وہ بہت یاد آنے لگا
دل نے مدت سے جو ایک شخص بھلا رکھا ہے
آخری بار جو آیا تھا میرے نام محسن
میں نے اس خط کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
Posted on Sep 26, 2011
سماجی رابطہ