سوچتا ہوں کے اسے نیند بھی آتی ہوگی

سوچتا ہوں کے اسے نیند بھی آتی ہوگی

سوچتا ہوں کے اسے نیند بھی آتی ہوگی ،
یا میری طرح فقط اشک بہاتی ہوگی ،

وہ میری شکل میرا نام بھولنے والی ،
میری تصویر سے کیا آنکھ ملاتی ہوگی ،

اس زمین پے بھی ہے سیلاب میرے اشکوں سے ،
میرے ماتم کی صدا عرش ہلاتی ہوگی ،

شام ہوتے ہی وہ چوکھٹ پے جلا کے شمعیں ،
اپنی پلکوں پے کئی خواب سلاتی ہوگی ،

اسنے سلوا بھی لیے ہونگے سیاہ رنگ لباس ،
اب محرم کی طرح عید مناتی ہوگی ،

میرے تاریک زمانوں سے نکلنے والی ،
روشنی تجھ کو میری یاد دلاتی ہوگی ،

دل کی معصوم رگیں خود ہی سلگتی ہوںگی ،
جون ہی تصویر کا کونا وہ جلاتی ہوگی ،

روپ دے کر مجھے اس میں کسی شہزادے کا
اپنے بچوں کو کہانی سناتی ہوگی . . .

Posted on Feb 16, 2011