سنا ہے اس کی مسیحائی کا ہے رنگ جدا

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو ہم بھی حوصلے اپنے جگر کے دیکھتے ہیں

رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے وہ لہو بن کر
اسے ہم اپنے ہے دل میں اُتَر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے صبر سے جو بھی ملے وہ نورس ہے
سو ہم بھی ذائقے اپنے سمر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بھی دل میں خیال پلتے ہیں
سو اس خیال کو تحریر کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی مسیحائی کا ہے رنگ جدا
سو آج ہم بھی ہوا میں بکھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اسکی نگاہیں بھی شعر کہتی ہیں
سو آج ہم بھی قرینے نظر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے زوم ہے اسکو کچھ اپنے خوابوں پر
سو اس کے خواب کو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے منہ سے جو نکلے قبول ہوتا ہے
سو ہم بھی معجزے لیلہ قدر کے دیکھتے ہیں

وہ بیوفا ہے اسے پاس عشق راس نہیں
محبتوں سے ہم اپنی مکر کے دیکھتے ہیں .

Posted on Sep 10, 2011